Dehshat Naak Haseena – Horror Novels in Urdu

ونو دکو شانتی ذرا برابر بھی پسند نہیں آئی تھی۔ وہ اس کے حسن جہاں سوز سے بالکل متاثر نہیں ہوا تھا۔ اس کی جگہ کوئی اور مرد ہوتا تو وہ اس پر عاشق ہو جاتا۔ اس کے لمبے سیاہ بالوں کی خوبصورتی بھی ونو دکو اپنا اسیر نہیں بنا سکی تھی ۔ نہ ہی شانتی کے رس بھرے ہونٹوں میں کوئی کشش محسوس کی تھی۔ شانتی کی آنکھیں نہ صرف بڑی بڑی بہت خوبصورت ، بلکہ صاف وشفاف  بھونرا جیسی تھیں ۔ جو دیکھتاوہ ان میں ڈوب جاتا۔ مگر اسے ان آنکھوں میں کوئی جازبیت محسوس نہیں ہوئی تھی۔ نہ ہی اس کی نئی فیٹ گاڑی سے کوئی دلچسپی تھی اس میں بیٹھ کر وہ مجھ سے ملنے کے لیے روز آتی تھی۔

 

 

میں نے بھی ونو د سے یہ پوچھنے اور جانے کی کوشش نہیں کی تھی اور نہ ہی ضرورت محسوس کی تھی کہ وہ شانتی سے اس قدر متنفر کیوں ہے؟ میں تو اس بات پر بہت خوش تھا کہ شانتی میری ہے اور مجھ سے محبت کرتی ہے۔

ہمیں نے خواب و خیال میں بھی نہیں سوچا تھا کہ میری محبت بعد میں مصیبتوں کا باعث بن جائے گی۔

ونود کی بیوی  سجا تا بہت خوبصورت نہیں لیکن پر کشش تھی چار بچوں کی ماں تھی۔ ان کی محبت کی شادی تھی اس لیے وہ کسی اور عورت کی طرف نہیں دیکھتا تھا۔ سجاتا کا جسم اور جوانی ڈھل گئی تھی۔ پھر بھی وہ اپنے بیوی بچوں سے بے انتہا محبت تھا اور اپنی آمدنی ان پر فراخ دلی سے خرچ کرتا تھا۔

“تم نہ صرف اپنے پیروں پر کلہاڑی مار رہے ہو بلکہ بیس برس کی دوستی کے درمیان نفرت کا بیج بو رہے ہو۔”

ونودایک روز بگڑ کر برہمی سے بولا ۔” شانتی اچھی عورت نہیں ہے وہ  ایک حسین چڑیل ہے عورتیں بہت مل جائیں گی مگر ایک اچھا دوست نہیں مل سکتا۔

میں بھی محسوس کر رہا تھا کہ ہماری دوستی میں فرق آ رہا ہے۔ وہ کوئی دس دن سے بلا ناغہ مجھ سے ملنے چلی آرہی تھی۔ اس وجہ سے ہمارے درمیان تلخ کلامی پیدا ہوگئی تھی۔ شانتی تو میری کمزوری بن گئی تھی۔ اس کا چہرہ اور سراپا میرے من کے نہاں خانے میں نقش ہو گیا تھا۔ جس وقت وہ بندرگاہ آتی ایک طوفان سا آجاتا۔ چکنی لکڑی کے تختوں پر وہ خود کو بچاتی ہوئی ہماری لانچ کی طرف آتی تو ساڑھی کو دونوں ہاتھوں میں پکڑ کر اوپر اٹھا لیتی  کہ کہیں پیروں میں نہ آ جائے۔

اس کی گوری گوری سڈول پنڈلیوں کو دیکھ کر لانچوں میں کام کرنے والوں کے ہونٹوں سے سیٹیاں بجنے لگتیں ۔ جب وہ پہلی بار لانچ پر آئی تھی تو میں اکیلا تھا۔ ونو دکسی کام سے شہر گیا ہوا تھا۔ اس وقت میں لان کی اپنے بیڈ روم میں تھا۔ وہ نیچے آگئی تھی ۔ اسے کچھ معلومات درکار تھیں ۔ اسے دیکھ کر ایسا لگا تھا جیسے میں کوئی سندر سپنا دیکھ رہا ہوں۔

 

 

تھوڑی دیر کے بعد اس نے جانے کی اجازت چاہی اور مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھایا۔ پھر بات مصافحے سے آگے بڑھ گئی تھی۔ اس کے جانے کے بعد اس کی یہ مہربانی مجھے خواب کی طرح لگی تھی۔ ویسے وہ اس بات کی کوشش کرتی تھی کہ ونود کی غیر موجودگی میں آئے۔ صرف دو تین مرتبہ وہ  ونو د کی موجودگی میں آئی تھی ۔ ووجب بھی آتی گل کھلا کر جاتی۔ وہ ببڑی فیاض عورت نکلی تھی ۔ مجھے اپنی قسمت پر رشک آنے لگا تھا۔

تم یہ بات مت بھولو کہ ہم  دونوں حصہ دار ہیں اس لانچ پر ہم دونوں کا مساوی حق ہے۔ وہ ہمارے ساتھ دبئی جانا چاہتی ہے۔ اس کا معقول کرایا ا دا کررہی ہے۔ میں نے اسے ساتھ لے جانے پر آمادگی ظاہر کر دی ہے۔

تم ایک تیر سے دو شکار کر رہے ہو ۔۔۔۔ تم سفر کے دوران ہنی مون  مناؤ گے۔۔۔۔ مجھے اس سے کوئی سروکار نہیں ۔ لیکن تم یہ کیوں نہیں سوچتے ہو کہ کام متاثر ہو گا۔ ونو د نے ہذیاتی لہجے میں کہا۔ پھر تم ایسا کرو کہ مدن لال کو ساتھ بھیج دو۔ اس ٹرپ پر تم ساتھ نہیں چلو۔” چلو میں نے سپاٹ لہجے میں کہا۔

” تم ۔۔۔ تم اس قدر خود غرض ہو گئے ہو؟ یہ بات مجھ سے کہہ رہے ہو؟ وہ افسردہ ہو گیا۔میں نے اس کی بات کا جواب نہیں دیا۔ چندلحوں کے بعد وہ دل گرفتہ لہجے میں بولا آئندہ ماہ میرے ہاں ولادت متوقع ہے میں نے جس ہسپتال میں اسکا نام لکھوایا ہے وہاں کے اخراجات بہت زیادہ ہیں۔ اس کے علاوہ بچوں کی بھی کچھ ضروریات ہیں جنہیں ہر قیمت

پورا کرنا ہے۔“ تم اپنے بچوں کو لانچ پر لاؤ تو انہیں تاکید کرو کہ وہ ذرا تمیز سے رہیں۔

مجھے آج صبح انجمن روم سے پلاسٹک کا ایک آبی پستول ملا ۔ اس کے علاوہ تیل کاڈ بہ بھی الٹا پڑا ہوا تھا۔ کسی روز اس لانچ کا پاس ہو جائے گا۔۔۔۔ شانتی کی وجہ سے ہمیں جور قم مل رہی ہے

اس میں تم بھی حصہ مہ دار ہو۔ اس طرح تمہاری ضروریات پوری ہو جائیں گی۔“

بچوں کو سمجھا دوں گا۔۔ یہ کیوں نہیں سوچتے ہو کہ بچے  توبچے ہی ہوتے ہیں آج سے پہلے بچوں کے کھیلنے پر اعتراض نہیں کیا۔۔۔

 جب سے یہ عورت آئی ہے تمہاری جھولی میں پکے پھل کی طرح گر چکی ہے، تب سے تمہارا دماغ اونچا جارہا ہے۔۔۔۔ تم نے کبھی سنجیدگی اور اپنی کھوپڑی سے یہ بات سوچنے کی کوشش کی ہے کہ ایک چوبیس برس کی بہت ہی حسین و جمیل عورت تم پر کس لیے ریجھ گئی ہے۔۔۔۔؟ اتنی دلچسپی کیوں لے رہی ہے۔۔۔۔؟ یہ سوال تم  مجھ سے نہیں بلکہ آئینے میں اپنی صورت دیکھ کر پوچھو۔

 

 

میں نے وھیل ہاؤس کے آئینے میں اپنی صورت دیکھی۔ مجھ میں ایسی خوبصورت نہ تھی ۔ کہ جو ان کیا عمر رسیدہ عورتیں بھی دیکھنا پسند کریں۔

میر ی شادی اس لیے اب تک نہ ہو سکی تھی کہ میں نےشادی کیلئے جس عورت کو پسند کیا تھا اس نے مجھے پسند نہیں کیا ۔ چالیس برس کی عمر کا ہو گیا تھا۔ عورت کی طلب ہوتی تو میں بازارحسن چلا جاتا تھا۔ لیکن سات برس سے ادھر کا رخ نہیں کیا تھا۔ کیوں کہ ایڈز کی بیماری ہندوستان میں تیزی سے پھیل رہی تھی۔ میری زندگی میں آ بس آنے والی اور واحد عورت جو پہلی ہی مختصر ملاقات میں مجھ پر مہربان ہو گئی تھی اس نے کبھی خوف اور احتراز نہیں کیا تھا۔

وہ مجھ سے جس محبت سے ملتی اور باتیں کرتی تھی اس سے ایسا لگتا تھا کہ میں ادا کا ر شارخ ہوں۔ ونو داس کی محبت اورمجھ میں غیر معمولی دل چسپی سے مشکوک تھا۔

لیکن میں نہیں تھا۔ شام کا وقت تھا۔ دن ڈوبا نہیں تھا ایک پارٹی کا مال لوڈ کرنے کے بعد ونو دگھر گیا تھا۔ تب شانتی آئی۔ وہ جو لباس پہن کر آئی تھی نامناسب نہیں تھا وہ ایک اٹیچی لے کر آئی تھی اس کے موتیوں جیسے دانت چمک رہے تھے اس نے اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں پر رکھے تو نہ صرف اس میں حرارت تھی بلکہ مٹھا س بھی بھری تھی، اس نے لات مار کر کیبن کا دروازہ بند کر دیا۔

جب ہم کیبن سے باہر نکل کر عرشے پر آئے تو اس وقت اندھیرا گہرہ ہو چکا تھا۔ آٹھ بج چکے تھے ہم پورے دو گھنٹے تک کیبن میں بند رہے تھے۔ وہ وہسکی کی بوتل بھی لائی تھی۔ ہم نے وہسکی سے بھی شغل کیا تھا۔

اس نے مجھ سے دریافت کیا۔ ” کب تک روانگی ہے۔۔۔۔ ونو د کہاں ہے؟

” ہم صبح چار بجے روانہ ہو جائیں گے۔۔۔۔ ونو د اپنی بیوی کو دیکھنے گیا ہوا ہے۔ وہ شاید پورے دنوں سے ہے۔ آئندہ ماہ اس کے ہاں ولادت ہونے والی ہے۔“

کیوں نہ میں اور تم جا کراس کی بیوی کو دیکھ کر آئیں  ۔تمہارے دوست اور پارٹنر کے دل میں میرے لیئے جو نفرت ہے وہ کم ہو جائے ۔۔۔۔ کیوں کہ یہ سفر ایک دن کا نہیں بلکہ کئی دنوں کا ہے۔

ہمارا ہنی مون منانا اسے زہر نہ لگے۔“

اس کی بات معقول تھی ہم نے شہر جا کر خریداری کی سارا خرچ شانتی نے برداشت کیا ۔

ونود کی بیوی سجاتا اور اس کے بچوں کے لیے کپڑے، ٹافیاں، کیک اور کھلونے خریدے۔۔۔۔ ونو د اور اس کی بیوی دونوں خوش ہو گئے ۔ ونو داس کی مہمان نوازی میں لگ گیا۔ جس وقت وہ سجاتا سے باتیں کر رہی تھی میں نے بوریت دور کرنے کے لیے شام کا اخبار اٹھا لیا۔

 

اس میں بینک ڈکیتی کی واردات کی سنسنی خیز خبر تھی ساٹھ لاکھ روپے ایک بدمعاش جگن ناتھ لے اڑا تھا۔ اس نے بنک کے گارڈ کو ذبح کر دیا تھا بلکہ کیشئر کو بھی شدید زخمی کر دیا تھا۔ اس کی جیپ نے دوسپاہیوں کو بیچ سڑک پر روند دیا تھا۔ اس کی فائرنگ سے بارہ رہ گیر زخمی ہو گئے تھے ۔ اس بدمعاش کی اخبار میں تصویر بھی چھپی ہوئی تھی۔

اس کے نقوش کلہاڑی کے پھل کی طرح تیکھےاور تیز دھار بلیڈ کی طرح باریک تھے۔

اس کی آنکھیں سیاہ چمکیلی اور سفاک تھیں ۔ وہ ایک شیطان کی طرح دکھائی دے رہا تھا۔ ۔ ونو د نے مجھ سے کہا تھا کہ وہ رات بارہ بجے تک لانچ پر پہنچ رہا ہے۔ وہ بظاہر تو شانتی کی آمد پر خوش دکھائی دے رہا تھا لیکن وہ پھر بھی مشکوک تھا۔ اس نے شانتی سے پوچھا کہ وہ دبئی لانچ سے کیوں جا رہی ہے؟ ہوائی جہاز سے بھی جاسکتی ہے۔ شانتی نے جواب دیا تھا کہ اسے بحری سفر سے عشق ہے اور مچھلی کے شکار سے۔۔۔۔ وہ سفر کے دوران تازہ مچھلیاں پکا کر کھلائے گی۔

روانگی کے وقت دھند بڑی گہری تھی ۔ اس کے کہر آلود صبح میں گودی کی روشنیاں پانی کی سطح پر موتیوں کی طرح جھلمل جھلمل کر رہی تھیں ۔ جب ہم کھلے سمندر میں پہنچے تو کہر ہلکی ہو چکی تھی ۔ اب میں ونو دکو دیکھ سکتا تھا جو وہیل ہاؤس کے قریب پبٹھا کانٹوں میں مچھلی کے شکار کے لیے چارہ پھنسا رہا تھا۔ لانچ پر کل تین  افراد تھے۔ شانتی ، ونو داور میں۔

اس وقت مجھے شانتی کچن سےباہر آتی دکھائی دی۔ وہ لانچ کے ہچکولے کھانے کی وجہ سے سنبھل سنبھل کر قدم اٹھاری تھی ۔ اس نے اپنے گورے اور سڈول ہاتھوں میں کافی کے تین بڑے کپ پکڑ رکھے تھے۔ ایک اس نے ونو دکو دیا۔ ونو د نے بے رخی سے لے لیا۔ زبان سے شکریہ ادا نہیں کیا۔۔۔۔ دوسر امگ اس نے مجھے دیا تو میں نے اس کا ہاتھ چوم لیا۔ پھر اس نے میری کمر میں ہاتھ ڈال کر کہا۔میں عرشے پر جاؤں تو کوئی حرج نہیں ۔۔۔۔ابھی مت جاؤ لہروں میں بہت تیزی ہے لڑھک کر سمندر میں گر جاؤ گی۔ تمہیں تیرنا آتا ہے۔۔؟

 

 

ہاں لیکن میں چند گز سے زیادہ تیر نہیں سکتی مگر میں محتاط رہوں گی۔اس نے میری بات کا جواب دیا۔ اس نے میری بات نہیں مانی۔

میں نے اسے شیشے سے عرشے کی طرف جاتے ہوئے دیکھا۔ پھر وہ مکمل طور پر کہر کی لپیٹ میں آچکی

تھی اب وہ ایک ہیولے کی طرح دکھائی دے رہے تھی میں نے وھیل سنبھال لیا۔ لانچ چلانے میں مصروف ہو گیا۔ وھیل سیٹ کرنے میں دس پندرہ منٹ لگتے تھے۔ میں اسے  سیٹ کر کے ونود کے پاس جانا چاہتا تھا۔

کہ اس کی مددکروں جو کانٹوں میں چارہ لگانے میں مصروف تھا۔

وھیل ہاؤس کا دروازہ کھلنے کی آواز سن کر میں نے گھوم کر دیکھا۔ ونو دکودیکھ کر چونک پڑا۔ میں ایک ایسی عجیب اجنبی سی کیفیت تھی جسے میں فوری طور پر سمجھنے سے قاصر تھا۔

میں نے بھنویں اچکائیں۔ اس کے پیچھے شانتی تھی مگر اب وہ پہلے سے مختلف دکھائی دے رہی تھی ۔ اس کے عقب میں ایک شخص تھا۔ اس کے ہاتھ میں ریوالور تھا۔ اس نے ونود کو نشانے کی زد میں لیا ہوا تھا۔ اس کے نقوش کلہاڑی کی طرح تیکھے اور ہونٹ تیز دھار بلیڈ کی طرح تیز تھے۔ اس کی سیاہ خوفناک آنکھوں میں سفاک چمک تھی ۔

جگن ناتھ ۔۔۔۔؟ میری زبان سے بے ساختہ نکل گیا۔ میں نے

اسے پہچان لیا۔ اس کی تصویر اخبار میں دیکھی تھی ۔

تم وھیل پر نظر رکھو۔۔۔۔ مجھ پر نہیں عقل مند آدمی ۔۔۔ تم نے مجھے پہچان لیا۔۔۔۔ اچھی طرح سے کان کھول کر سن لو۔۔۔۔ اگر تم نے ہمارے لیے مشکل کھڑی کرنے کی کوش کی تو سمندرکی چھلیوں کی خوراک بنا دوں گا۔ وہ غرایا۔ “

اس نے بڑی بے رحمی سے ونود کو دیوار کی طرف دھکیل دیا۔ مجھے اپنی

آنکھوں پر یقین نہیں آ رہا تھا۔ شانتی جگن ناتھ کے جسم سے لگ کر کھڑی ہو

گئی۔ وہ اسے محبت نظروں  سے دیکھ رہی تھی۔ اس نے جگن ناتھ

کا بازوں اس طرح تھام رکھا تھا جس طرح میرا بازو تھاما تھا۔ یہ تھوڑی

دیر پہلے کی بات تھی۔

ہم دبئی نہیں گوا جائیں گے۔۔۔ راستہ تبدیل کرو۔ وہ تحکمانہ لہجے میں بولا ۔ اور ہاں۔۔۔۔ گڑ بڑ کرنے کی کوشش مت کرنا۔ ورنہ تمہاری کھوپڑی میں دو تین سوراخ ہو سکتے ہیں۔

میں نے ونود کی طرف دیکھتے ہوئے راستہ تبدیل کیا۔ اس کی آنکھوں میں نفرت اور غصے کے ساتھ ساتھ میرے لیے رحم کے جذبات موجزن تھے۔ اس نے مجھ سے کچھ نہیں کہا لیکن مجھے اپنے سینے میں چھری اترتی ہوئی محسوس ہوئی۔

” تم نے ٹھیک ہی کہا تھا ونو د اس حرافہ کے بارے میں ۔۔۔۔ میں دل کی بات کہے بغیر نہیں رہ سکا۔ میری آواز حلق میں پھنس رہی تھی۔ تمہاری بات سولہ آنے درست نکلی ۔۔۔۔

اس نے اپنے یار کو فرار کرانے کے لیے میرے ساتھ کھیل کھیلا۔ مجھ پر مہربان ہو گئی۔

تم ۔۔۔۔تم نے مجھے دس بارہ سے دن سے کٹھ پتلی بنا کر رکھا۔ پورے وحشی بن گئے۔ تم نے جو میرے ساتھ حیوانوں والا سلوک کیا ، تم نے جو ناشائستہ حرکتیں کیں وہ ناقابل معافی ہیں۔ میں نے یہ سب کچھ جگن ناتھ کے لیے برداشت کیا۔ وہ پھنکاری۔

تمہیں دیکھ کر مجھے اندازہ ہو گیا ہے کہ میری شانتی کیسی صلاحیتوں کی

مالک ہے۔

 

 

، جگن ناتھ نے بھونڈ اقہقہ لگایا۔ ” تم جیسے سور حرامی پر دنیا کی بدصورت عورت بھی مرمٹ نہیں سکتی ہے۔ تم خارش زدہ کتے کی طرح نظر آرہے ہو.

اس کے توہین آمیز الفاظ سن کر میری رگوں میں لہو ابلنے لگا۔ میں نے انجام کی پرواہ کئے بغیر اس پر چھلانگ لگائی تو ونود نے میری راہ میں حائل ہو کر مجھے اپنے بازوؤں کی گرفت میں لے لیا۔جگن ناتھ نے میری کھوپڑی پر پستول کی نال رکھ دی۔

بہادری دکھانے کی حماقت مت کرو۔ ونود نے مجھ سے کہا۔ اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔“

یہ ایک مفید مشورہ ہے۔“ جگن ناتھ نے استہزائی لہجے میں کہا۔

اس پر عمل کر نا۔ ایک بات اچھی طرح سے ذہن نشین کر لو کہ ہم جلد سے جلد گوا پہنچنا چاہتے ہیں۔ لہذا شرافت سے لانچ چلاتے رہو۔“ میرےاندر آتش فشاں کھول رہا تھا۔ میں نے شانتی کی طرف نفرت بھری نظروں سے دیکھا ۔ تم نے مجھے الو بنایا۔۔

اس کے سوا چارہ نہیں تھا۔۔۔۔‘ شانتی زور سے ہنسی۔ تمہارے الو بننے سے مجھے یہ فائدہ ہوا مشکل حل ہو گئی ۔ میرے علم میں آ گیا تھا کہ تمہاری نئی لانچ ہے۔

تیز رفتار اور جدید ترین ہے۔ اس لانچ پر صرف دو آدمی تھے۔ ونو دمیرے جال میں اس لیے پھنس نہیں سکتا تھا کہ وہ شادی شدہ تھا اور اسے اپنی بیوی سے بے انتہا محبت تھی ۔ مجھے تمہیں پھانسنا تھا تم پھنس گئے۔۔۔۔ اس طرح تم بڑی آسانی سے الو بن گئے۔“

یہ کب اور کس وقت لانچ میں داخل ہو کر چھپا تھا۔۔۔۔؟‘ میں نے جگن ناتھ کی طرف اشارہ کر کے پوچھا۔

رات جب میں اور تم نیچے  والے کیبن میں داد عیش دے رہے تھے

تب اس نے موقع سے فائدہ اٹھایا۔ پھر میں بہانے سے تمہیں ونود کے گھر لے گئی۔ اس طرح تم دونوں بیک وقت لانچ پر نہیں تھے۔ یہ بہترین موقع تھا جو جگن ناتھ کول گیا

تم ایک ڈکیت ہی نہیں قاتل اور دہشت گرد بھی ہو ۔‘ ونو د نے کہا۔ تم نے ڈکیتی کی واردات کے ساتھ خون ریزی کی ۔ کتنے ہی لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ شاید تم ہم دونوں کو بھی قتل کر دو گے۔ لیکن تم قانون کے ہاتھوں سے بچ نہ سکو گے۔ تمہیں پھانسی پر لٹکا دیا۔ جائے گا۔ یہ عورت بھی سزا سے بچ نہ سکے گی۔”

یہ عورت نہیں کیتا ہے۔۔۔۔ میں نے قہر آلود نظروں سے شانتی کو دیکھا۔ جس کا بدن بھڑکیلے لباس میں ابلا بڑ رہا تھا۔

اپنی زبان کو لگام دو۔۔۔۔ جگن ناتھ دہاڑا۔ تمہیں اندازہ نہیں ہے کہ اس نے میری خاطر کتنی بڑی قربانی دی ہے۔

میرا دوست ٹھیک کہہ رہا ہے۔‘ ونود نے کہا۔ واقعی یہ عورت ایک کتیا سے بھی بدتر ہے۔ اس نے میرے دوست کو فریب دیا۔ ہماری بے مثال دوستی کو دشمنی میں بدل دیا۔ میرے دوست کو ورغلانے کے لیے یہ طوائف بن گئی۔“

” تم نے بحری راستے سے فرار ہونے کو تر جیح کس لیے دی ؟ ” میں نے اچانک موضوع بدل دیا تھا تا کہ شانتی آپے سے باہر نہ ہو جائے۔ ونو د نے اسے کتیا اور طوائف کہہ کر سرخ کر دیا تھا۔ اس لیے کہ پولیس کو اس طرف کا ابھی خیال نہیں آیا ہے۔ سڑکوں کی ناکہ بندی کر رہی ہے ۔ جگن ناتھ نے جواب دیا۔ پھر وہ بولا ۔

شانتی کے بارے میں تم لوگ جو زبان اور الفاظ استعمال کر رہے ہو ۔ آئندہ زبان بند رکھنا۔۔۔۔”

میں چاہتی ہوں کہ اس کا مزہ چکھاؤں۔۔۔۔‘ شانتی غضب ناک ہوکر بولی ۔ اس نے مجھے کتیا کہا ہے۔ طوائف کہہ کر گالی دی ہے۔۔۔میں اسے ذبح کرناچاہتی ہوں

اسے نیچے لے چلو۔۔۔۔

 

 

میری رگوں میں سنسناہٹ دوڑگئی یہ خالی خولی دھمکی نہیں تھی۔ کیوں کہ

اس کے چہرے سے سفا کی اور درندگی جھلکنے لگی تھی۔ ونو د بے خوفی سے کھڑا رہا۔ میں نے کہا تم نے ایسا کیا تو اچھا نہیں ہوگا۔۔۔۔؟”

میں کالی ماتا کے نام پراس کی بھینٹ دینا چاہتی ہوں۔“ وہ بولی۔ اسے ذبح کرنے سے ہر قسم کی مصیبتوں اور پولیس سے بچ جائیں گے۔۔۔۔ کالی ماتا ہماری حفاظت کرے گی۔“

تم ٹھیک کہتی ہو ۔ ۔ ۔ ۔“ جگن ناتھ نے تائیدی لہجے میں کہا۔ ” تم

نے اپنے گنجے عاشق کو کالی ماتا کی خوشنودی اور ڈکیتی کی واردات کی کامیابی کے لیے ذبح نہ کیا ہوتا تو اس ڈکیتی میں کامیابی نصیب نہ ہوتی۔

کالی ماتا نے مجھے بال بال بچا لیا ہمیں ان دونوں کو ہی موت کی بھینٹ چڑھانا ہے۔ پہلے ونود کو پھر اس بے چارے عاشق کو۔ جس نے تمہیں گدھ کی طرح نوچ لیا۔

جگن ناتھ نے اپنی جیب سے ایک پستول نکال کر شانتی کی طرف

بڑھایا۔ اس پستول سے تم اپنے عاشق کو نشانے پر رکھو۔ اس نے اپنی پر جگہ سے حرکت یا جنبش کی تو بلا تامل گولی مار دینا۔ میں اسے کھانے کی میز پرلٹا کر باندھ کر آتا ہوں۔ پھر تم چل کراپنے ہاتھوں سے ذبح کر دینا۔۔۔۔

ان کی باتوں نے مجھے دہشت زدہ کر دیا تھا۔ میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے تھے ۔ شانتی اتنی سفاک اور درندہ صفت ہو گی میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔

بقول جگن ناتھ کے اس نے ایک شخص کو کالی ماتا کی بھینٹ چڑھایا تھا اپنے ہاتھوں سے ذبح کیا تھا۔ میں یہ سوچ کر لرز گیا یہ حسین عورت اس قدر ظالم اور شقی القلب ہے۔ کیا ایک عورت ایسی ہو سکتی ہے۔

 

 

ونو کا چہرہ سفید پڑتا چلا گیا۔ زندگی کسے پیاری نہیں ہوتی ۔ اسے اپنی زندگی سے زیادہ اپنے بیوی بچوں کی فکرتھی۔ اسے جگن ناتھ ڈائننگ حال میں لے کر گیا۔

شانتی دروازے کے پاس پستول تانے کھڑی رہی۔ میری حالت اس تصور سے بڑی غیر ہو رہی تھی۔ کہ مجھے بھی زبح کر دیا جائے گا۔ میں نے اس سے بات کرنے کی کوشش کی توکی تو وہ کسی زہریلی ناگن کی طرح پھنکاری۔

حرام زادے۔۔۔۔ ذلیل۔۔۔۔ کمینے۔۔۔ تم دس بارہ دن تک مجھے گیلے کپڑے کی طرح نچوڑتے رہے۔۔۔۔ میرے ساتھ ایسی حرکتیں کیں۔

کہ آج اب بھی میرا بدن اور جوڑ جوڑ درد دکر رہا ہے ۔۔۔۔ جانتے ہو میں تم سے کیا بدلہ لوں گی۔۔۔۔؟ پہلے تمہارے جسم کےاعضاء ایک ایک کر کے کاٹوں گی ۔۔۔۔ پھر تمہارے گلے چھری پھیروں گی۔۔۔

اس کے باتیں میرا خون خشک کر رہی تھیں۔ تھوڑی دیر بعد جگن ناتھ آیا اور بولا۔۔۔چلو اسے زبح کر دو۔۔۔

اسے بھی ساتھ لے چلو تاکہ یہ بھی تو قتل کا دیدہ زیب منظر دیکھ سکے۔ شانتی نے استہزائی لہجے میں کہا۔ ہاں

اسے ساتھ لے کر چلنا چاہیے۔۔۔۔ کیوں کہ ونود کے بعد اس کا نمبر ہے۔ جگن ناتھ نے تائید کی۔ پھر وہ مجھ سے تحکمانہ لہجے میں بولا ۔ ”چلو منے میاں ۔۔۔ تم نے بڑے عیش کرلیے۔“ میں نے غیر محسوس انداز سے انجن میں اپنی مہارت سے تھوڑی سی خرابی کر دی تا کہ انجن ہلکی سی گڑگڑاہٹ سے بند ہو جائے ۔

 

 

اس میں کچھ منٹ لگنے تھے۔ میں پھانسی کے قیدی کی طرح چل پڑا۔ نیچے پہنچا تو دیکھا کہ ونود کے ہاتھوں اور پیروں کو میز کے پایوں کے ساتھ باندھا ہوا ہے۔ اس کے سینے پر ایک چھرا رکھا ہوا ہے۔ میرے ذہن میں ایک تجویز آرہی ہے۔۔۔۔۔‘ جگن ناتھ نے شانتی کے رخصار کو چومتے ہو کہا کیوں نہ ایک دوست اپنے دوست کو اپنے ہاتھوں سے ذبح کر ہے۔ کالی ما تا اور خوش ہو جائے گی کہ ایک دوست نے عظیم قربانی عظیم چڑھائی۔

تمکیا کہتی ہو؟

ونڈ رفل !۔۔۔۔ شانتی نے چہکتے ہوئے اس کا بوسہ لے لیا۔

 تم نے کیا خوب سوچا ہے؟ کالی ماتا کو تو ایسی قربانیاں بہت پسند ہیں۔۔

چلو ۔۔۔۔ چلو آگے بڑھو۔۔۔

ان دونوں نے باری باری پستول اور ریوالور کی نالیں میری گردن اور کھوپڑی پر رکھ دیں۔ جگن ناتھ نے تحکمانہ لہجے میں کہا۔

چھرا اٹھاؤ۔۔۔۔اس کے گلے پر پھر دو ۔“

و نودنے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔ چھرا اٹھاتے ہوئے میرا ہاتھ کانپ گیا۔میرا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا ی یہ میرا کیسا امتحان تھا۔ کہ میرے یاتھوں سے ایک عظیم دوست کو زبح کروایا جا رہا تھا۔

اس وقت انجن ہلکی سی گڑ گڑاہٹ کے ساتھ بند ہو گیا ۔ جگن ناتھ اچھل پڑا۔ یہ کیا ہو گیا ؟“

انجیکٹر میں شاید ائیر لاک ہو گیا ہے۔ ایسا اکثر ہو جاتا ہے۔

میں اسے پانچ منٹ میں ٹھیک کر دوں گا ۔“

چلو چل کر پہلے اسے دیکھو۔۔۔۔‘ جگن ناتھ نے کہا۔ پھر مجھے وہ

نشانے کی زد میں انجن روم تک لے آیا۔

زینہ تنگ ہونے کی وجہ سے وہ انجن روم میں نہیں اترا۔ وہاں زیادہ گنجائش نہ تھی اور پھر وہ کوئی خطرہ مول لینے کو تیار نہ تھا۔ وہ اوپر ہی کھڑا رہا۔ ایک دو مرتبہ جھک کر اس نے میری طرف دیکھا تھا۔ میں بظاہر انجن ٹھیک کر رہا تھا لیکن مجھے کسی اور چیز کی تلاش تھی ۔ میں نے اس مطلوبه چیز کو جلد ہی پا لیا یہ  پلاسٹک کا ایک پستول تھا جسے ونود کے کسی بچے نے یہاں پھینک دیا تھا۔ جس کی موجودگی پر ہم برہم بھی ہوئے تھے۔

تم کیا کر رہے ہو۔۔۔۔؟ جگن ناتھ دہاڑا۔

 اتنی دیر کیوں ہو رہی ہے؟”

بیٹریاں چیک کر رہا ہوں۔۔۔۔ میں نے اسے چیخ کر جواب دیا۔

میں نے جلدی سے ایک بیٹری سیل کا ڈھکنا اتارا۔ اس آبی پستول کو اس سیل کے دہانے میں داخل کر کے لیور کھینچاتو بیٹری میں موجود تیزاب اس میں بھر گیا۔ پھر میں نے ڈھکنا بند کر دیا۔ پستول جیب میں رکھ لیا اور اوپر آیا تواس نے مجھ پر ریوالورتانتے ہوئے پوچھا۔ ”یہ تم نے اپنی جیب میں کیا چھپایا ہے؟“

میں نے اسے پلاسٹک کا پستول دکھاتے ہوئے کہا۔ یہ ونود کے بچے کا ہے۔

میں نے اسے دینے کے لیے رکھ لیا ہے۔

اسےتو اب تمہاری روح ہی پہنچا ئے گہ۔

اسے زحمت کیوں دیں لاؤ مجھے دو۔

کیاواقعی تم ہم دونوں کوذبح کرنے والے ہو؟ میں نے خوف زدہ لہجے میں پوچھا۔

ہاں۔۔۔۔ وہ بولا ۔ ” تم یہ پستول مجھے دینے میں اس طرح پس و پیش کر رہے ہو جیسے یہ اصلی پستول ہے۔ بغرض محال تمہارے پاس اصلی پستول ہوتا تو تم کیا کرتے ۔۔۔۔

اس نے میری مشکل حل کر دی تھی۔ میں نےکھلونا پستول نکل کر فضا میں بلند کیا اس کی طرف بڑھایا اور اس کے چہرے سے ایک فٹ پرروک لیا۔ پھر کہا۔ “

حقیقی پستول ہوتا تو تمہارے اس طرح قریب آ کر تمہاری آنکھوں کا نشانہ لے کرفائر کر دیتا۔“

” تم مسخرے بھی ہو۔ وہ قہقہ کا ہنسا۔ اگلے ہی لمحے اس کے منہ سے دل خراش چیخ نکلی ۔

میں نے اس کی لبلبی دبائی تھی ۔ تیزاب کی دھار اس کی آنکھوں پر پڑی۔

وہ پیچھے ہٹا تو میں نے فوراً ہی اس کا ریوالور جھپٹ لیا۔

اب اس کے دونوں ہاتھ آنکھوں پر تھے۔ اور وہ ماہی بےآب کی طرح تڑپ رہا تھا۔

شانتی اس کی چینخ سن کر تیزی سے ادھر آئی ۔ اسے ٹھوکر لگی اور وہ منہ

کے بل گری۔ اور اس کے ہاتھ سے پستول چھوٹ کر فرش پر گر گیا۔۔۔ بساط الٹ گئی تھی ۔ اب وہ میرے رحم و کرم پر تھی ۔

لانچ واپس جارہی تھی۔ قاتل اور اعانت جرم کرنے والی حسینہ اور ڈکیتی کی رقم ہمارے پاس تھی ۔حکومت اور بینک نے بیس فیصد انعام کا اعلان کیا تھا۔۔۔

 

 

میرے لیے سب سے بڑا انعام ونو داور اس کی دوستی تھی۔ ونود نے سچ ہی کہا تھاحسین عورتوں کی دنیا میں کوئی کمی نہیں ہے۔

لیکن سچا دوست نہیں ملتا۔

Leave a Comment